غیر قانونی ہجرت کے نقصانات تحریر:ماہ نور شکیل

  




غیر قانونی ہجرت کے نقصانات
تحریر:ماہ نور شکیل

غیر قانونی طریقوں سے بیرون ملک جانا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے لیکن پھر بھی ہر سال ہزاروں افراد یورپ، امریکہ اور دیگر ممالک جانے کے لیے غیر قانونی راستے اپناتے ہیں اور اپنی زندگی مشکل میں ڈالتے ہیں۔ پاکستان میں  تھوڑی سی محنت، تحقیق، موجودہ وسائل پر نظر ثانی، اپنی قابلیت میں اضافے کے ذریعے آپ ان مشکلات سے بچ سکتے ہیں۔اس حوالے سے غیر قانونی ہجرت کرنے والے شہزاد خان سے ایک نشست ہوئی۔
شہزاد خان نے بتایا کہ بچپن سے خواہش تھا کہ جب بڑا ہوکر یورپ  جانے کے بعد وہاں رہائش اختیار کروں،غربت کی وجہ سے یہاں کوئی سرکاری  نوکری نہیں ملی،میرا ماموں بیرون ملک مقیم ہے ان کودیکھ کر میرے دل میں بھی لالچ آیا کہ میں بھی بیرون ملک عیش و عشرت کی زندگی گزار لوں،جب میں جوان ہوگیا تو  اپنے گھر والوں سے مشورہ کیا کہ میں بھی یورپ جاوں گا لیکن گھر والوں نے میری مخالفت کی،میں نے ضد کرکے بغیر کسی مشورے گھر سے نکل کرکے سید ھا پشاور گیا میرے پاس 20 ہزار روپے نقد اور ایک جوڑا کپڑے تھے اور کوئی چیز نہیں تھی،بیرون ملک ایک دوست نے ایک ایجنٹ کا رابطہ نمبر دیا،پہلے میں قانونی طریقے سے یورپ جانا چاہتا تھا لیکن  ان کے اخراجات اور طریقہ کار طویل تھا جو میرے بس کی بات نہیں تھی،ایجنٹ سے صرف واٹس ایپ کے زریعے رابطہ  ہوتا تھا،یورپ میں مقیم دوست نے بہت سمجھایا کہ مت آنا  راستے میں بہت مشکلات ہے،ایجنٹ نے مجھے کہا کہ  آپ بغیر کسی تکلیف کے آسانی سے بذریعہ روڈ جاسکتے ہے،ایجنٹ کے کہنے پر پشاور سے کوئٹہ روانہ ہونے لگا تو اپنے والد کو فون کیا کہ میں نکل گیا ہوں،لیکن والد نے منع کیا کہ بیٹا مت جانا لیکن میرا جنون تھا اور کوئٹہ پہنچ گیا،ایجنٹ نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ کوئٹہ تک تمام خرچہ آپ خود کرینگے اس کے بعد تمام اخراجات ہم اٹھائینگے،ہم گیارہ لوگ تھے جس میں دو خواتین بھی تھے،کوئٹہ پہنچنے کے بعد  ایجنٹ سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ہماری گاڑی آرہی ہے آپ فلاح ہوٹل میں قیام کرینگے،ہم نے رات ہوٹل میں گزاری،صبح ہوتے ہی ایجنٹ نے سوزکی گاڑی  بھجوادی ہم نے  دو سے تین گھنٹے کا سفر کرکے ایران بارڈر تک پہنچایا،اس کے بعد ڈیزل سپلائی کرنی والی گاڑیوں میں الگ الگ بیٹھا کر آگے تک لے گئے اس کے بعد شادی کے بارات والی گاڑیوں میں بیٹھا کر  روانہ کیا،کوئٹہ سے تاپتان کا سفر آٹھ گھنٹے کا تھا روڈ صحراوں اور جنگلوں کے وسط میں تھا،آٹھ گھنٹے کا سفر بہت تھکا ہوا تھا رات ہم نے صحرا میں گزاری جب ہم صبح اٹھے تو ہماری آنکھیں ریت سے بھری تھی،اس کے بعد ہم نے کئی میل پیدل سفر کیا،اس کے بعد ڈاٹسن گاڑی آئی اور اس میں 60 بندوں کو  بیٹھا  یا اور بارڈر کے قریب رات کی تاریکی میں  پہنچا دیا،صبح روشنی کے وقت ہمیں بارڈر کراس کیا گیا،چھ گھنٹے پیدل سفر کیا جب بارڈر کراس کررہے تھے تو اس وقت ہمارا قافلہ تین سے چار سو لوگوں پر مشتمل تھا،سب لوگوں کے الگ الگ ایجنٹ تھے،جب میں ایران پہنچ گیا  تو بہت افسوس کیا کہ کیوں آیا،کیونکہ وہاں پر ایک موٹر کار میں 14 بندوں  کو بیٹھا کر   اپنے مقامات  پہنچانا تھا،راستے میں ہمارے قافلے میں شامل ایک موٹر کار پر آگ بھی لگی  جس میں ڈرائیور سمیت تمام بندے معمولی جھلس گئے،راستے میں اگر کسی بندے کو کوئی مسئلہ درپیش  آتا تو ڈرائیور ان کو گاڑی سے اتار کر ان صحراوں میں چھوڑتے،پاک ایران  پہاڑی بارڈر پر دونوں ممالک کے سیکورٹی فورسز نظر نہیں آئی،ایران پہنچنے کے بعد ایجنٹ کے بندوں نے ایران کے شہر اسفھان  ے گیا،وہاں رات گزاری  جہاں ہم نے رات گزاری وہ ایک بڑا گھر تھا جس میں تین سو کے قریب غیر قانونی ہجرت کرنے والے بندے تھے،صبح تمام بندوں کو ایک ایک ڈبل روٹی اور دھی دی گئی،تہران تک سفر آٹھ گھنٹے کا پید ل سفر کیا،جس میں ہمارے ساتھ ایرانی،افغانی اور پاکستانی خواتین اور بچے بھی شامل تھے،راستے میں کچھ لوگ بے ہوش بھی ہوئے تھے،راستے میں ہمارے ایک ساتھی کو وہاں کے چوروں نے پکڑلیا اس کے بعد ایجنٹ نے تیس ہزار روپے دیکر چھوڑوا دیا،ایران سے ترکی تک سفر9 گھنٹے کا تھا،راستے میں ہمیں بڑی پیاس لگی تھی لیکن ڈرائیور نے گاڑی نہیں روکی،رات کی تاریکی میں ترکی بارڈر تک پہنچا یا گیا،رات ہم ایجنٹ کے گھر گزاری  اور پھر اگلے دن کی شام کے وقت نکلے ایجنٹ نے گیارہ بندوں کو پانی کی بوتلیں،بسکٹ اور ایک موبائل سم دیا اور کہا کہ اگر کوئی مسئلہ ہو تو  رابط کیا کرئے،صبح دوبجے کے قریب  ترکی کا بارڈر کراس کیا،تمام سفر پیدل تھا،جب ہم ترکی پہنچے تو وہاں کے سیکورٹی فورسز نے روکنے کا اشارہ کیا،کچھ لوگ آگے سے پیچھے اور کچھ پیچھے سے آگے بڑھ رہے تھے تو ٹکراوں ہوا کیونکہ700 کا قافلہ تھا،سیکورٹی فورسز نے کچھ لوگوں کو پکڑ لیا،اسی دوران انہوں نے فائرنگ بھی کی زیادہ تر لوگ پیچھے جبکہ کچھ ترکی کی طرف بھا گ گئے،میں بھی ترکی کی طرف بھاگ گیا لیکن فورسز اہلکاروں نے ہمیں پکڑ لیا اور دستاویزات میں پوچھ گچھ شروع کرتے ہوئے ہم پر تھپڑوں کی بارش کردی،سیکورٹی فورسز نے 150 بندوں کو ایک ہی لائن میں کھڑا کرکے  کہا کہ آپ سب کو ایران واپس بھیجا جائیگا،میں لائن سے ہٹ جھاڑیوں میں چھپ گیا اور آہستہ آہستہ ترکی کی طرف سفر کیا،صبح سورج نکلتے ہی میں ایک گاوں پہنچ گیا،ایک ترکش  کے زریعے اپنے ایجنٹ سے فون پر رابطہ کیا،شام تک ترکش کے گھر میں مقیم تھا،شام کے وقت ایجنٹ کی گاڑی پہنچی  اور وہان تک پہنچایا اور وہاں پر ایجنٹ کو پورے پیسے جمع کئے  پھر وہان سے کنٹینر میں بند کرکے 24 گھنٹے کا سفر کیا،استنبول جانے کے راستے میں پولیس نے ہماری  گاڑی پکڑ کر کیمپ  لے گیا اور پھر ایران بارڈر تک پہنچا دیا،اس کے ایرانی چوروں نے ہمیں پکڑ لیا،ہم نے9 دن چوروں کے ساتھ گزاری،ایک دن ایک ٹریفک اشارے پھر چوروں کی گاڑی رکی میں نے گاڑی کا دروازہ کھول کر وہاں سے بھا گ گیا،دو دن بھوکا پیا سا صحرا میں گزاری،جب ایران کے شہر پہنچ گیا تو ایک بندے زریعے ایرانی ایجنٹ سے رابطہ کیا،ایرانی ایجنٹ نے میرے لئے پاکستان کے بجائے افغانستان کی ٹکٹ خریدلی،افغانستان سے پھر پاکستان پہنچ گیا،اس طویل مشکل سفر سے میں نے بہت کچھ سیکھا کہ غیر قانونی ہجرت کرنا صرف اور صرف موت ہے۔
غیر قانونی ترک وطن کے بارے میں قومی کمشن برائے انسانی حقوق (این سی ایچ آر) نے حال ہی میں ایک رپورٹ جاری کر دی جس کے مطابق 2021ء سے اکتوبر 2022ء کے دوران غیر قانونی طور پر یورپ جانے والے پاکستانیوں کی تعداد میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا۔ دسمبر 2023ء تک 8778 افراد غیر قانونی طور پر یورپ گئے۔ سیاسی بے یقینی،مہنگائی، تعلیم کے مواقع کم ہونا اور روزگار کی کمی بھی غیر قانونی ہجرت کے اسباب ہیں۔ پاکستان کے شہری علاقوں سے غیر قانونی ہجرت کا رجحان زیادہ ہے۔ پاکستانی دبئی، مصر اور لیبیا کے ذریعے یورپ جانے والا نیا راستہ استعمال کر رہے ہیں۔ اس راستے سے 2023ء کی پہلی ششماہی میں 13 ہزار پاکستانی یورپ پہنچے اور 10 ہزار افراد واپس نہیں لوٹے۔
ما ئیگرنٹ ریسورس سنٹر کے کوارڈنیٹر نے  بتا یا کہ  ایم آرسی لوگوں کو قانونی اور محفوظ ہجرت کے بارے میں تمام معلومات مفت فراہم   کررہے ہیں،انہوں نے کہا کہ بیرونِ ملک ملازمت کی تلاش کے لیے ہمیشہ حکومت کی جانب سے رجسٹرڈ لائیسنس یافتہ بھرتی کی ایجنسی یا حکومت کے قائم کردہ اورسیز ایمپلائمنٹ کارپوریشن سے رابطہ کریں۔انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں مائیگرنٹ ریسورس سنٹرز بنائے گئے ہیں اور کام کر رہے ہیں۔ تاکہ لوگوں کو ہجرت کے عمل کے دوران باخبر اور مفید فیصلے کرنے میں مدد ملے۔ ایم آرسیز(MRCs) بیرون ملک سفر کا ارادہ رکھنے والے، خواہشمند اور ممکنہ تارکین وطن کو ہجرت سے متعلق وسیع پیمانے پرد رپیش مسائل اور روزگار کیمواقعوں کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہیں۔ایم آر سی میں موجود کاؤنسلرز کی ٹیم بیرون ملک سفر کا ارادہ رکھنے والے، خواہشمند افراد کو انفرادی طور پر اور اس کے علاوہ فون، ای میل اور واٹس ایپ کے ذریعے بھی مشاورت فراہم کرتی ہے۔ محفوظ اور قانونی ہجرت کے فوائد اور غیر قانونی ہجرت کے خطرات اور نتائج سے آگاہی فراہم کرتی ہے۔
بیوہ خاتون زاہدہ نے بتا یا کہ میرے شوہر کے انتقال کے بعد میرے بڑے بیٹے نے گھر کی  ذمہ داری سنبھال لی تھی،گھریلو اخراجات بڑھنے  اور بہنوں کی شادیوں  کی فکر میں بیٹے نے غیر قانونی طور پر یورپ جانے کا ارادہ کیا تو میں اس بات کے حق میں نہیں تھی۔ میں نے ان سے کہا کہ میری اور آپکی بہنوں کا کیا بنے گا، آپ کی غیر موجودگی میں میرا اور اس کا خیال کون رکھے گا؟ لیکن انہوں نے میری بات نہیں مانی اوربے روزگاری کی وجہ سے غیر قانونی طور پر براستہ ایران یورپ کے لیے روانہ ہو گئے۔ایک سال گزرنے  بیٹے سے کوئی رابطہ نہیں ہوا  میری امید ختم ہو چکی  تھی کہ میرا بیٹا مرچکا ہے،ایک سال تک ہمارے گھر میں لاش نہیں تھی لیکن رونا دھونا روز کا معمول بن چکا تھا گھر مجھے سمیت میری بیٹیوں نے غم کی وجہ سے صیح طرح کھانا بھی نہیں کھا یا،لیکن میرے بھائیوں نے میری حاطر سبھی پونچی جمع خرچ کرکے میرے بیٹے کا ایک جیل میں سراغ لگا لیا  اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کا دوسال میرا بیٹا زندہ سلامت گھر پہنچ گیا۔
سوشل ورکر حسن حساس نے بتایا کہ پاکستان کی 64 فیصد کی آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 30 فیصد نوجوان ایسے ہیں جن کی عمریں 18 سے 30 سال کے درمیان ہیں۔ نوجوانوں کو کسی بھی ملک کا قیمتی اثاثہ سمجھا جاتا ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے ملک میں نوجوانوں کی کوئی قدر نہیں ہے اور نہ ہی ان کے لیے روزگار کے مواقع ہے۔ ملک کے اندر مواقع کی کمی کی وجہ سے پاکستان سے غیر قانونی طور پر جانے والوں کی تعداد دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ  اگر کوئی شخص  اگر ہجرت کا ارادہ  رکھتے ہوں  تو ہمیشہ قانونی ہجرت کا انتخاب کریں اور اپنی جان و مال کی حفاطت کریں۔ زیادہ تر لوگ ہجرت کا انتخاب بہتر مستقبل کے حصول کے لیے کرتے ہیں، اورتحقیق کے مطابق غیرقانونی ہجرت کواپنانے کی بنیادی وجہ مستند معلومات کا فقدان ہے، زیادہ تر لوگوں کا یہ خیال ہے کہ وہ غیر قانونی ہجرت کے ذریعے اپنے پسندیدہ ملک باآسانی، کم پیسوں میں اور جلد پہنچ جائیں گے جبکہ سچائی اسکے برعکس ہے۔
کفایت اللہ ایڈوکیٹ نے کہا کہ انسانی سمگلنگ کا عمل بہت منافع بخش کام ہے جو کہ بہت پرامن طریقے سے جاری ہے،تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوان غربت کی وجہ سے  یورپ جانے کے خواہش مند ہوتے ہیں  اور غیر قانونی نقل مکانی خود ایک مجرمانہ فعل  تصور نہیں کرتے  اور اپنی بقا کے لیے غیر قانونی طریقے اپناتے ہیں، خاص طور پر جب انھوں نے یورپ پہنچنے کے لئیے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے انسانی
سمگلروں کو بھاری رقم دی ہو اور ان کے والدین سمجھتے ہوں کہ وہ یورپ پہنچ چکے ہیں، تو بہت سی امیدیں لگائے،انہوں نے کہا کہ ملک میں غیر قانونی ہجرت کیلئے ایکٹ بھی موجود ہے،   جس میں ایک آرڈنینس2002 ہے اور ایکٹ 2018 ہے جو غیر قانونی ہجرت  کرنے والے کی مدد کرتے ہیں،لیکن ان پر عملد درآمد نہیں ہوتا،حکومت کو چاہیے کہ وہ ملک میں انڈسٹری قائم کریں تاکہ ملک سے بے روزگاری کا خاتمہ ہوسکے،انہوں نے مزید بتا یا کہ زیادہ تر مجرمانہ ذہنیت کے حامل  انسانی اسمگلروں  کا نیٹ ورک نئے شکار تلاش کر کے اپنی رقم ریکور کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا پھر وہ خود لوگوں کو غیر قانونی بارڈر کراسنگ کی طرف راغب کرنے اور اس لین دین سے پیسہ کمانے کے لیے اپنا الگ سے نیٹ ورک  شروع کر دیتے ہیں جبکہ ان میں سے کچھ غیر قانونی تارکین کو اغوا کرنا شروع کر دیتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان مغوی متاثرین کی کوئی قانونی حیثیت یا ریکارڈ نہیں ہے لہذا قانونی کارروائی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ متاثرین ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں کر سکتے اور نہ ہی کوئی شکایت درج کروا سکتے ہیں۔

0/Post a Comment/Comments