پنجاب اور خیبر پختونخوا میں پانی کی قلت اور جدید حل
تحریر: سدرہ آیان
پاکستان پانی کی قلت کے حوالے سے دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں مستقبل قریب میں شدید بحران کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ عالمی اداروں کی رپورٹس کے مطابق اگر حالات پر قابو نہ پایا گیا تو 2025 تک پاکستان میں پانی کی دستیابی ''انتہائی خطرناک'' درجے تک گر سکتی ہے۔ صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا اس بحران سے براہِ راست متاثر ہیں، جہاں زرعی زمینوں کو سیراب کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کو پینے کے لیے بھی صاف پانی میسر نہیں۔
اسی تناظر میں انٹرنیشنل واٹر مینجمنٹ انسٹیٹیوٹ (IWMI) نے خیبر پختونخوا کی چھ خواتین صحافیوں کو موقع دیا کہ وہ پانی کی قلت کے شکار علاقوں کا دورہ کریں اور عوام کے مسائل اور حل کے امکانات کو قریب سے دیکھ سکیں۔
جدید ٹیکنالوجی: سوئل موئسچر سینسر کا تعارف
دورے کے دوران ہمیں“سوئل موئسچر سینسر”سے متعارف کرایا گیا، جو کہ کسانوں کے لیے ایک نہایت اہم اور جدید آلہ ہے۔ اس سینسر کی مدد سے کسان فصلوں کو ''سائنس کی بنیاد پر'' پانی دے سکتے ہیں نہ کہ اندازوں پر۔
یہ سینسر مٹی میں جڑوں کی گہرائی تک نصب کیا جاتا ہے اور نمی کی صورتحال کو تین رنگوں کے ذریعے ظاہر کرتا ہے
نیلا رنگ: زمین میں کافی نمی موجود ہے، پانی دینے کی ضرورت نہیں۔
سبز رنگ: نمی موجود ہے، مگر جلد آبپاشی کی ضرورت ہوگی۔
سرخ رنگ: فوری طور پر پانی درکار ہے۔
یہ ڈیٹا وائی فائی یا سینسر کارڈ کے ذریعے کسان کے موبائل پر بھی دستیاب ہوتا ہے۔ اس ٹیکنالوجی سے
پانی کا غیر ضروری استعمال کم ہوتا ہے
بجلی اور ایندھن کی بچت ہوتی ہے
پیداوار میں بہتری آتی ہے
اور سب سے بڑھ کر قیمتی پانی محفوظ رہتا ہے۔
ماہرین کے مطابق اگر یہ سینسر بڑے پیمانے پر استعمال ہوں تو نہ صرف پانی کے بحران پر قابو پایا جا سکتا ہے بلکہ زرعی معیشت کو بھی سہارا مل سکتا ہے۔
پانی کی شدید قلت کا شکار گاؤں: مانسہرہ کا ایک کربناک منظر
مانسہرہ کے ایک گاؤں کا دورہ ہماری آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی تھا۔ چار ہزار گھروں پر مشتمل اس علاقے میں محض دو ٹیوب ویلز ہیں۔ پانی کی فراہمی ہر 15 سے 25 دن بعد صرف ایک گھنٹے کے لیے کی جاتی ہے۔ اس مختصر وقت میں لوگ جلدی جلدی اپنے برتن بھر لیتے ہیں اور پھر وہی پانی اگلے کئی دنوں تک استعمال کرتے ہیں۔
ہم نے اپنی آنکھوں سے وہ پانی دیکھا جس میں ریت کے ذرات صاف نظر آ رہے تھے۔ ایک مقامی خاتون نے بتایا
''بعض اوقات وضو کے لیے بھی پانی میسر نہیں ہوتا۔ پانی نہیں آتا، لیکن بل ضرور آتا ہے۔''
یہ جملہ حالات کی سنگینی اور عوام کی بے بسی کو واضح کرتا ہے۔
بجلی کا بحران اور حکومتی بے حسی
اس گاؤں میں پانی کی قلت کی ایک بڑی وجہ بجلی کی شدید کمی بھی ہے۔ کم وولٹیج کی وجہ سے ٹیوب ویلز اکثر چل ہی نہیں پاتے۔ مقامی افراد نے بتایا کہ وہ کئی بار احتجاج کر چکے ہیں، سڑکیں بلاک کی ہیں، حکام کو درخواستیں دی ہیں، مگر پچھلے 15 سے 20 سال میں کوئی عملی اقدام نہیں اٹھایا گیا۔
خواتین کو سب سے زیادہ اذیت سہنی پڑتی ہے۔ وہ کپڑے اور برتن دھونے کے لیے یا تو دریا کا رخ کرتی ہیں (جو 20 سے 25 منٹ کے فاصلے پر ہے) یا پھر گھروں میں موجود قلیل مقدار میں پانی سے گزارا کرتی ہیں۔
وعدے، سیاست اور عوام کی بے بسی
اہلِ علاقہ کے مطابق سردار محمد یوسف طویل عرصے سے یہاں سے منتخب ہوتے آئے ہیں، لیکن پانی کا مسئلہ جوں کا توں ہے۔ علی امین گنڈا پور سے رجوع کرنے پر جواب ملا کہ یہ مقامی نمائندوں کی ذمہ داری ہے۔
ایک بزرگ شہری نے مایوسی کے عالم میں کہا:''الیکشن کے دن آتے ہیں، وعدے کیے جاتے ہیں، ہم ووٹ دیتے ہیں، اور پھر کوئی پلٹ کر نہیں دیکھتا۔''
امید کی کرن: این جی اوز کی کوششیں
جہاں حکومتی ادارے ناکام نظر آتے ہیں، وہیں کچھ غیر سرکاری تنظیمیں (NGOs) مقامی لوگوں کے لیے سہارا بنی ہیں۔ ان تنظیموں نے پانی کے پمپ اور بعض مقامات پر سولر سسٹمز فراہم کیے ہیں، جن سے لوگوں کو کسی حد تک ریلیف ملا ہے۔ ایک خاتون نے جذباتی انداز میں کہا:
''حکومت سے زیادہ تو این جی اوز سچّا کام کر رہی ہیں۔''
ماہرین کی رائے اور ممکنہ حل
پانی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان کو نہ صرف پینے کے پانی بلکہ زرعی پیداوار میں بھی شدید بحران کا سامنا ہوگا۔ ان کے مطابق:
بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے چھوٹے ڈیمز اور ریزروائر بنائے جائیں۔
دیہات میں سولر واٹر پمپس متعارف کرائے جائیں تاکہ بجلی پر انحصار کم ہو۔
جدید سینچائی نظام جیسے ڈرپ اریگیشن کو فروغ دیا جائے۔
پانی کے ضیاع کو روکنے کے لیے عوامی سطح پر آگاہی مہم چلائی جائے۔
نتیجہ
پانی زندگی کی بنیادی ضرورت ہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے کئی علاقے اس وقت پانی کی شدید قلت کا شکار ہیں۔ ایک طرف کسان جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، تو دوسری طرف ہزاروں دیہات کے لوگ بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔
یہ صرف صحافتی رپورٹ کا معاملہ نہیں، بلکہ ایک ایسا بحران ہے جس کے حل کے لیے حکومت، ماہرین، سول سوسائٹی اور عوام سب کو مل کر کردار ادا کرنا ہوگا۔ ورنہ آنے والا وقت اور بھی کٹھن ہو سکتا ہے۔
ایک تبصرہ شائع کریں