پاکستان کا قدرتی ماحول موسمیاتی تبدیلی سے متاثر
تحریر:عبداللہ شاہ بغدادی
پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا سامنا کر رہا ہے، لیکن اس چیلنج کو مواقع میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ پائیدار زراعت، متبادل توانائی، اور عوامی آگاہی جیسے اقدامات سے ہم اس بحران کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ اگر ہم مل کر کام کریں تو ہم نہ صرف اپنے ملک بلکہ عالمی سطح پر بھی مثبت تبدیلی لا سکتے ہیں۔اس حوالے سے خیبر پختونخوا میں امید پراجیکٹ نے امریکی قونصلیٹ جنرل پشاور کے تعاون اور سینٹر فار سوشل ایجوکیشن اینڈ ڈیولپمنٹ کی معاونت کے تحت ملاکنڈ،سوات اور ایبٹ آباد میں ورکشا پس منعقد کئے جس میں مسلم، مسیحی، ہندو، اور سکھ برادریوں کے مذہبی رہنماؤں کو موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تربیت فراہم کی گئی ، ورکشا پس میں بین المذاہب تعاون پر زور دیا گیا اور شرکاء کو اپنی کمیونٹیز کو ماحول کے تحفظ کے لیے متحرک کرنے کے لیے رہنمائی اور تربیت فراہم کیے گئے۔تربیت میں مذہبی رہنماؤں اور مبصرین کی شمولیت توقعات سے بڑھ کر تھی۔ تربیتی نشست خیبر پختونخوا میں موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اجتماعی اقدامات کو فروغ دینے کے مقصد سے امید پراجیکٹ کے تحت چھ ورکشاپس کی سیریز کا حصہ ہے۔ مذہبی رہنماؤں کے ساتھ، مقامی حکومتوں، سول سوسائٹی، میڈیا، اور نوجوانوں کی تنظیموں کے نمائندے بھی مختلف سیشنز میں شریک ہوئے، جس نے موسمیاتی مسائل کے حل کے لیے جامع اور متنوع نقطہ نظر کو یقینی بنایا۔موسمیاتی تبدیلی کو ایک سنگین مسئلے کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے شرکاء نے اسے خیبر پختونخوا کی شہری و دیہی آبادی کے لیے "بقاء کا بحران" قرار دیا۔ تربیت میں اہم موضوعات جیسے تعاون کرنے کی حکمت عملی، ماحولیاتی چیلنجز سے نبٹنے کی تدابیر، اور شہریوں کی شمولیت پر توجہ دی گئی۔ مذہبی رہنماؤں نے ماحولیات کے تحفظ کو اپنے خطبوں، لیکچرز، اور مذہبی اجتماعات کا حصہ بنانے کا عزم کیا تاکہ آگاہی پیدا کی جا سکے اور عملی اقدامات کی تحریک دی جا سکے۔ تربیتی نشست میں حصہ لینے والے شرکا نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ "مذہبی رہنما اخلاقی ذمہ داری رکھتے ہیں کہ ہم سب ایک ساتھ مل کر پوری کمیونٹیز کو ماحول کو مستقبل کی نسلوں کے لیے محفوظ رکھنے کی ترغیب دیں۔"شرکاء نے موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے کو حل کرنے میں نوجوانوں اور خواتین کے اہم کردار پر بھی زور دیا اور انہیں شامل کرنے کے لیے حکمت عملیوں کا جائزہ لیا۔ مذہبی رہنماؤں نے کہا کہ کہ وہ خواتین اور نوجوانوں کو امید پراجیکٹ کے تحت "کمیونٹی ایکشن پروجیکٹس" میں شامل کریں گے۔ شرکانے کہا کہ "نوجوان اور خواتین تبدیلی کے لیے محرک ہیں۔ جب انہیں بااختیار بنایا جائے، تو وہ پائیدار حل فراہم کر سکتے ہیں اور یہ یقینی بنا سکتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کے خلاف ہم سب جدوجہد جامع اور مؤثر ہو۔" شرکاء نے مؤثر طور پر نچلی سطح کے ماحولیاتی اقدامات کو نافذ کرنے کے لیے ادارہ جاتی تعاون کی ضرورت پر زور د یتے ہو ئے کہا کہ"مذہبی رہنما شہریوں اور پالیسی سازوں کے درمیان پل کا کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کی فعال شمولیت مؤثر اور پائیدار موسمیاتی اقدامات کے برے اثرات سے تحفظ کی بنیاد کو مضبوط کرتی ہے۔موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے میڈیا کا کردار بہت اہم ہے،میڈیا کے توسط سے ہی
ماحولیاتی تبدیلی کے مقابل دفاع کے فروغ کے لیے بین المذاہب تعاون کو اجاگر کیا جاسکتا ہے۔ مذہبی رہنماؤں کے درمیان اتحاد ایک طاقتور بنیاد فراہم کرتی ہے اور ایسی کوششوں سے شہریوں کو فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔ورکشاپس نے بین المذاہب تعلقات کو مزید گہرا کرنے میں بھی مدد فراہم کرنے اور تمام مذہبی رہنماؤں کی مشترکہ اخلاقی ذمہ داری پر زور دیا کہ ماحولیات کا تحفظ لازمی ذمہ داری ہے۔ شرکاء نے موسمیاتی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے اپنے عزم کا اظہار کیا اور کہ کہ یہ یکجہتی اس مشترکہ فہم کی عکاسی کی کہ ماحولیاتی تحفظ تمام مذاہت کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے ہمیں قومی سطح پر ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ اس میں حکومت، نجی شعبہ، سول سوسائٹی، اور عام شہریوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنے قدرتی وسائل کا تحفظ کرنا ہوگا، پائیدار ترقی کو فروغ دینا ہوگا، اور اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ایک محفوظ اور خوشحال مستقبل کی بنیاد رکھنی ہوگی۔ یہ ایک مشکل چیلنج ہے، لیکن پاکستان کے عوام اپنے عزم کے ساتھ اس چیلنج سے نبرد آزما ہوسکتے ہیں۔
ایک تبصرہ شائع کریں