اللہ تعالی نے انسان کو زمین پر اشرف المخلوقات بنا کر بھیجا





وراثت میں خواتین کا حق اور ہمارا کردار

تحریر:محمد پرویز

اللہ تعالی نے انسان کو زمین پر اشرف المخلوقات بنا کر بھیجا، زمین پر بسنے والی تمام مخلوقات اور وسائل کو اس کے لیئے مسخر کر دیاحضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آج کے جدید دور تک انسان مختلف ارتقائی ادوار سے گزرا اور پتھروں کے زمانے سے ترقی کرتا ہوا آج جدید ٹکنالوجی کے دور میں داخل ہو چکا ہیاگر دیکھا جائے تو انسان کے اولین پیدائش سے ہی خیر و شر کے درمیان جنگ کا آغاز ہو چکا ہیاور شیطان اپنے مکر و فریب سے انسانوں کے درمیان نفاق پیدا کرتا آرہا ہے۔انسان فطرتا لالچ طبع واقع ہوا ہیخواہ وہ جنت کا لالچ ہو یا زر، زن، زمین کا ہر کوئی اس دوڑ میں لگا ہوا ہے کہ سب سے ذیادہ اور سب سے آعلی چیزوں کو حاصل کریں اس وجہ سے انسان بعض اوقات اپنے حدود سے تجاوز کرکے دوسرے انسانوں کا حق مار لیتا ہیجس کی وجہ سے لڑائی جھگڑا اور فساد پیدا ہو جاتا ہے جس میں اکثر قیمتی جانیں ضائع ہونے کے ساتھ ساتھ رشتے ناتے بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں، شیطان انسان کے عقل پر کچھ اس طرح پردہ ڈال دیتا ہے کہ اسے اپنا ہر عمل انتہا پسندی کی حد تک ٹھیک اور دوسروں کا کردار غلط نظر آتا ہے اور یہی انتہا پسندی انسان کو شدت پسندی اور قتل و غارت گری پر مائل کر دیتی ہے جس کی وجہ سے بہت سے معاشرے نیست و نابود ہو جاتے ہیں اور یہی روئیے بڑوں سے چھوٹوں میں منتقل ہو کر صدیوں تک دشمنی کا باعث بنے رہتے ہیں۔آج سے تقریبا ساڑھے چودہ سو سال پہلے اللہ تعالی نے اپنے آخری نبی کو قرآن کریم کی شکل میں ایک منظم اور جامع نظام حیات کے ساتھ زمیں پر اتارا، اسلام ایک ایسا مذھب ہے کہ جس میں انسانوں کے حقوق کا خیال تو رکھا ہی گیا ہیمگر اس کے ساتھ ساتھ پیڑ پودوں اور یہاں تک کہ ہر چھوٹی بڑی چیزوں کیلیئے قواعد و ضوابط مرتب کیئے گئے ہیں جن پر عمل کر کے انسان ہمیشہ امن و امان سے اس دنیا میں ذندگی بسر کرتا آرھا ہے مگر جہاں پر ان قوانین کو توڑا گیا وہاں پر شر و فساد نے انسانوں کی زندگی کو اجیرن بنا کر رکھ دیا ہے یہی وجہ ہے کہ اسلامی اصولوں پر عمل کرکے ہی انسان امن اور خوشحالی حاصل کر سکتا ہے۔ہمارے معاشرے میں آج کل ذیادہ تر لڑائیاں اور رنجشیں جائیداد کے حصوں اور مال کے تقسیم پر پیدا ہو رہی ہے جہاں پر اکثر اوقات عورتوں کو وراثت میں ھصہ دینا تو درکناراس کے ساتھ رشتے ناتے بھی ختم کر دیئے جاتے ہیں۔اسلام نے وراثت میں عورتوں کے لیئے بحیثیت ماں،بہن، بیٹی اور بیوی کے اپنے حقوق مقرر کر رکھے ہیں اس طرح آئین پاکستان میں ان حقوق کو تحفظ بھی فراہم کی گئی ہے اس کے باوجود ہم سب اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہوئے اور آئین پاکستان کے پابند بتاتے ہوئے بھی اس کوشش میں لگے ہوتے ہیں کہ اپنی عورتوں کو کسی بھی طرح وراثت میں حصہ نہ دیں بلکہ کسی بھی طرح ان کا حق غصب کرکے اپنے درمیان ہی تقسیم کر لیں جو کہ دین کے ساتھ ساتھ آئین پاکستان کے قوانین کی بھی واضح خلاف ورزی ہے اے جی ایچ ایس لیگل ایڈ سیل کے 2017 سٹڈی سروے کے مطابق پاکستان میں تقریبا 80 فی صد عورتوں کو وراثت میں حصہ نہیں دیا جاتا اسطرح آواز فاؤنڈیشن پاکستان کے ایک سروے کے مطابق تقریبا 86 فی صد پاکستانی عورتوں کو وراثت میں حصہ نہیں ملتا۔پاکستان کے مختلف علاقوں میں جیسے سندھ، بلوچستان اور پنجاب کے بعض علاقوں میں کئی خاندان ایسے بھی ہیں جو اپنے بہنوں اور بیٹیوں کی صرف اس وجہ سے شادی نہیں کروا رہے ہیں کہ کہیں ان کو وراثت میں حصہ نہ دینا پڑ جائے، اسکے برعکس خیبر پختونحوا میں لڑکیوں کی شادیاں تو کر دی جاتی ہیں مگر وراثت میں حصہ دینا معیوب سمجھا جاتا ہے, بعض اوقات لوگ اننا انتہا پسند بن جاتے ہیں کی اگر کوئی بہن یا بیٹی اپنا حصہ مانگ لیں تو ان کو قتل تک کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے یہی وہ روئیے ہیں جو ہمیں انتیا پسندی،شدت پسندی اور تباہی وبربادی کی طرف لے جاتے ہیں ہمارے یہی روئیے نسل در نسل منتقل ہو کر خاندانوں کے خاندان اجاڑ دیتے ہیں۔آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ہر عورت خواہ وہ ماں،بہن،بیٹی یا بیوی ہوان کو بھی انسان مانیں، ان کے حقوق کو بھی تسلیم کر لیں اور ایک اچھے مسلمان اور محب وطن پاکستانی ہونے کا ثبوت دے کر اپنی عورتوں کو وراثت میں ان کا حق بروقت ادا کریں تا کہ ہمارا معاشرہ بگاڑ کے بجائے پرآمن طور پر تشکیل پا سکیں اور اللہ تعالی کے سامنے سرخرو ہو کر پیش ہو سکیں۔آئیے نسل انسانی کے بقا کی خاطر اور ایک پرامن معاشرے کی تشکیل کے لیئے اپنا کردار ادا کریں۔

0/Post a Comment/Comments